ادب میں آزادیِ اظہارِ رائے پہ کوئی حد نہیں ہونی چاہیے۔
ادب کیا ہے؟
السلام علیکم! جیسا کہ آپ عنوان پڑھ چکے ہیں
ادب میں آزادیِ اظہارِ رائے پہ کوئی حد نہیں ہونی چاہیے۔
یہ موضوع سادہ لگتا ہے، پر ہے نہیں، کیونکہ اگر آپ یہ سوال کسی سے پوچھیں گے تو اس کا جواب اُس انسان کی سوچ پر ہوگا۔ کوئی کہے گا آزادیِ اظہارِ رائے پر حد ہونی چاہیے اس کے نزدیک اگر وہ یہ جواب سوچ کر دے رہا ہے تو اس کا مقصد ادب کو تہذیب کے دائرے میں رکھنا ہے، لیکن تہذیب بھی کی متعین کردہ ہوتی ہے۔ اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کوئی حد نہیں ہونی چاہیے دراصل نیت ان کی بھی نیک ہی ہوتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ادب پر ہر انسان کا حق ہے نہ کہ کسی خاص مذہب یا سوچ کا۔
خیر پہلے بات کر لیتے ہیں، ادب کیا ہے
"ادب وہ کلام ہے جو کسی موضوع (یعنی خیال، نکتے، احساس، جذبے، تجربے، مشاہدے یا تاثر وغیرہ) کو ایسے تخلیقی یا فنکارانہ انداز میں پیش کرے جو بیک وقت ذہن (یا فکر) اور دل (یا جذبات) یا جمالیاتی احساسات کو متاثر اور متحرک کرے۔'"ماخذ۔
یہ تو ہو گئی رسمی تعریف اگر اسان لفظوں میں کہوں تو میں سمجھتا ہوں ادب کا مقصد صرف تفریح نہیں، بلکہ انسان کو سوچنے، سمجھنے، محسوس کرنے اور بہتر معاشرہ تشکیل دینے کی تحریک دینا بھی ہے۔
یہ وہ سمندر ہے جو معاشرے کے درد، خواب، اور سچ کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔
یہ وہ آواز ہے جو ظلم کے منہ پر طمانچہ مارتی ہے۔
یہ وہ آئینہ ہے جو معاشرے کی اصلیت کو عریاں کرتا ہے۔
لیکن جب اس سمندر پر بند باندھ دیے جائیں، جب اس آواز کو دبایا جائے،
جب اس آئینے پر گرد ڈالی جائے، یا اس چراغ کو بجھانے کی کوشش ہو،
تو پھر اس سب کا نتیجہ کیا ہوگا ؟
اس کے نتیجے میں معاشرے کو بہت نقصان اٹھانے پڑتے ہیں ان نقصانوں کو میں بڑی تفصیل سے بیان کرنے والا ہوں۔
اور اس بات کی فکر مت کیجئے گا۔ کہ یہ صرف زبانی کلامی باتیں ہیں میں ایک ایک بات کا حوالہ دوں گا۔
یہ بلاگ اسی بات کا جواب ہے کہ کیا ایسے سمندر، چراغ، آئینے یا ایسی آواز پر کوئی حد ہونی چاہیے؟ ہم بات کریں گے کہ کیوں ادب پر کوئی حد نہیں ہونی چاہیے، کیوں حدود معاشرے کی روح کو کھوکھلا کرتی ہیں، اور کیا حدود نہ لگانے کا مطلب توہین کی اجازت دینا ہے؟
تیار ہو؟
چلو، دل سے دل تک کا سفر کریں! اور ہاں، بھول جاؤ کہ میں کون ہوں۔۔۔ سمجھو تم خود کو پڑھ رہے ہو۔

وہ جنت جو قید خانہ ہے
جس جنت کا میں ذکر کرنے والا ہوں، یہ وہی جنت ہے جس کا خیال لا کر ادب میں آزادیِ اظہار رائے پر پابندی لگتی ہے، حدیں لگائی جاتی ہیں۔
وہ جہاں الفاظ صرف خوشبو ہوں، سوچ صرف وہی ہو جو سب کو بھائے، اور اختلاف کرنے والا دھکے کھائے۔
ایسی جنت میں کڑوے سچ کی کوئی جگہ نہیں۔ وہ خیال جو چونکاتا ہے، وہ ہونے سے پہلے ہی دفن ہو جاتا ہے۔
ایسی جنت کے لیے کتنے ادیبوں کے خیالات کا خون کیا گیا؟ کتنے لوگ خاموش کرا دیے گئے، صرف اس لیے کہ ان کا سچ اس "جنت" کے قانون کے خلاف تھا؟
پہلی بات تو یہ کہ کبھی بھی اس جنت کو مکمل طور پر تشکیل نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ادیب دب تو سکتا ہے، جھک نہیں سکتا۔ اگر اسے دباؤ گے تو پھر بغاوت ہوگی اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے جب جب سوچنے والوں کو روکا گیا ہے تو بغاوت کی گئی ہے اور پورا تختہ ہی پلٹ گیا ہے خیر ہم اسے بڑی تفصیل سے ذکر کریں گے، کہ حدیں لگانے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔
معاشرے میں آ جا کر یہ ادیب ہی ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں، جو معاشرے کو نئے خیالات دیتے ہیں۔
اگر معاشرے میں ان کی ہی سوچ کا قتل ہوگا تو معاشرے کو بہت نقصان اٹھانا ہوگا۔
میرا مضمون تو محض ادب کے اندر ازادی اظہار رائے کے اوپر ہے لیکن جہاں بھی کسی تخلیق کی ذہن پر پابندیاں لگتی ہیں وہاں ترقی، جدت رک جاتی ہے اور وہ قوم جو یہ حدیں لگاتی ہے دنیا سے ترقی کے معاملے میں کئی سال پیچھے چلی جاتی ہے۔
میں اور آپ ابھی ان سب نقصانات کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔
اور یہ کوئی میری بنائی ہوئی بات نہیں، بلکہ میں یہ ثابت کروں گا کہ ہر ادیب اس جنت کے خلاف ہے جس میں اس کی سوچ کا خون ہو۔
چلیں شروع کرتے ہیں پھر غالب کے شعر سے، جو آپ کی جنت کو محض خوش فہمی سمجھتے ہیں۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
فیض احمد فیض نے اس جنت کو للکارتے ہوئے کہا:
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں گے
فیض کی جنت وہ تھی جہاں خلقِ خدا راج کرے،
جہاں سوچنے اور بولنے کی آزادی ہو۔
لیکن ایسی جنت بنانے کے لیے ادیب کو اپنا خون دینا پڑتا ہے۔
میں اسی کے ساتھ ساحر لدھیانوی صاحب کا ذکر کرنا چاہوں گا جنہوں نے اِس جنت کی مذمت کی ہے جو ظلم پر مبنی ہے جو ادیبوں کی سوچ کا خون اپنی بنیادوں میں رکھتی ہے۔ ان کی ایک نظم کے کچھ اشعار اگر اپ مکمل نظم پڑھنا چاہیں تو ان اشعار پر کلک کیجئے
اگر اپ یہ نظم پوری پڑھیں گے تو اپ کو اندازہ ہوگا وہ اس دنیا کو کوئی وقعت نہیں دیتے ان کے اشعار میں ایک شعر یہ بھی ہے کہ " یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی۔ اس طرح میں اپ کو انگنت ادیب اپنی شاعری کے ذریعے احتجاج کرتے دکھا سکتا ہوں جو اس جنت کو نہیں مانتے جہاں ان کی سوچ کا قتل ہو اور کوئی ادیب کیسے مان جائے، ان کا سوچنا ہی ان کی زندگی ہے چونکہ میں خود ایک شاعر ہوں تو میں اس بات کو سمجھتا ہوں۔ چلیے اگلے سیکشن میں بات کرتے ہیں کہ یہ حدیں لگانے کی نقصان کیا ہیں۔

ادب پر بندشیں: معاشرے کا زوال
جب ادب پر حدیں لگائی جاتی ہیں، تو معاشرہ اپنی روح کھو دیتا ہے۔ چلو، ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں کہ اظہار رائے پر بندشیں کیا کیا نقصان کرتی ہیں،ادیب کسی بھی معاشرے کی ہیرے ہوتے ہیں اور جب ان ہیروں کو چھپا دیا جاتا ہے تو پھر معاشرے نے تو غریب ہونا ہی ہے۔:
1. ادب کا معیار گر جاتا ہے
ذرا سوچیے، اگر آپ کو اپنے خیالات کے اظہار سے روک دیا جائے، اگر آپ کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا جائے کہ صرف وہی سوچو اور لکھو جو تمہیں بتایا جا رہا ہے — تو کیسا محسوس ہو گا؟
یہ کسی حساس اور تخلیقی ذہن کے لیے موت سے بدتر ہے۔
ہر وہ ادیب جو دل سے لکھتا ہے، اس کیفیت کو بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
اصل مسئلہ یہی ہے کہ جب تحریر محض حکم کے تابع ہو جائے، جب آپ کسی کے اشارے پر قلم اٹھائیں، تو پھر آپ وہ نہیں لکھ سکتے جو آپ کے دل کی آواز ہے۔
اور جو تحریر دل کی گہرائی سے نہ نکلے، وہ کبھی شاہکار نہیں بن سکتی۔
ادب انسانی روح کا آئینہ ہے، جو سچائی، جذبے، اور بے خوف فکر سے روشن ہوتا ہے۔ جب ادیب اپنے دل کی گہرائیوں سے لکھتا ہے، تو وہ لفظوں میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ فیض احمد فیض کی ہم دیکھیں گے کی گونج ہو یا سعادت حسن منٹو کے
ٹوبہ ٹیک سنگھ
کا کرب، یہ شاہکار آزادیِ فکر کی عظیم گواہی ہیں۔
لیکن جب قلم پر زنجیریں ڈال دی جائیں، جب خوف ادیب کے دل میں گھر کر جائے، تو ادب اپنی جان کھو دیتا ہے۔ وہ محض پروپیگنڈا بن کر رہ جاتا ہے، جو نہ دل کو چھوتا ہے نہ معاشرے کو بدلتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت (1977-1988) میں سنسرشپ نے پاکستانی ادب کو گویا قیدخانے میں ڈال دیا۔
سرکاری میڈیا مکمل طور پر آمر کے تابع تھا، اور آزاد خیال خبریں فوجی افسران کی چھان بین سے گزرتی تھیں۔
جنرل ضیاء الحق کی سنسرشپ کے کچھ حوالہ جات:
➊
➋
➌
➍
احمد فراز جیسے عظیم شاعر، جن کی شاعری میں محبت اور مزاحمت کا رنگ جھلکتا تھا، کو پابندیوں اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ان کی نظم
محاصرہ
اس دور کے ظلم کی آواز بن گئی، یہ ان کی بہت خوبصورت نظم ہے جس کے اندر انہوں نے برملا کہا ہے کہ وہ ظلم کا ساتھ نہیں دیں گے ان کا قلم تو امانت ہے ان کے لوگوں کی۔
اس دور میں ادبی رسائل پر بے پناہ قدغنیں لگیں، اور کئی ادیبوں نے خاموشی اختیار کر لی یا ملک چھوڑ دیا۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
احمد فرہاد جیسے شاعر، جن کے لفظ سچائی کے تازیانے ہیں، کو صرف اس لیے قید کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے اشعار، جیسے:
سوال کرتا ہے دیوانہ ہماری حد پر
یہ اپنی حد سے گزر گیا ہے، اسے اٹھا لو
ہر اس معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہیں جہاں سچ بولنا جرم بن جائے۔ یہ صرف شاعر کی قید نہیں، بلکہ پوری قوم کی فکری آزادی پر حملہ ہے۔
ادب کی یہ آواز سرحدوں سے ماورا ہے۔
2019 میں، جب بھارت نے Citizenship Amendment Act (CAA) کے ذریعے مذہبی بنیادوں پر شہریت کا قانون متعارف کرایا اور مسلمانوں کو اقلیتی فہرست سے خارج کرنے کی کوشش کی، تو پورے بھارت میں احتجاج کی لہر اٹھی۔
اس دوران، دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ سے لے کر کانپور کے IIT تک، نوجوانوں نے فیض کی مشہور انقلابی نظم "ہم دیکھیں گے" کو اپنی مزاحمت کا ترانہ بنایا۔
جب پولیس نے طلبہ پر تشدد کیا، جب سڑکوں پر آنسو گیس اور لاٹھیوں کی بوچھاڑ ہوئی، تو یہی نظم ان کے لبوں پر تھی، ان کے پلے کارڈز پر تھی، ان کے دل کی آواز بن گئی تھی۔
شاہین باغ کی خواتین نے اس نظم کے اشعار کو کاغذ کے جہازوں پر لکھا، جو ٹینک کے مقابل کھڑے تھے، گویا یہ بتاتے ہوئے کہ شاعری کی طاقت ظلم کے ہتھیاروں سے کہیں بڑی ہے۔
لیکن افسوس، "ہم دیکھیں گے" پر بھی تنازعہ کھڑا کیا گیا۔ IIT-کانپور کے ایک پروفیسر نے اسے "ہندو مخالف" قرار دیا، حالانکہ فیض، جو خود ایک سیکولر اور کمیونسٹ شاعر تھے، نے یہ نظم ضیاء الحق کے ظالمانہ دور کے خلاف لکھی تھی۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ادب کی طاقت سے کس قدر خوفزدہ ہیں وہ لوگ جو سچ کو دبانا چاہتے ہیں۔
جب ادب کو دبایا جاتا ہے، تو معاشرہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔
یہ زوال صرف کاغذ پر لکھے لفظوں کا نہیں، بلکہ ایک قوم کی روح، اس کے ضمیر، اور اس کے مستقبل کی موت ہے۔
ادب کی آزادی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔
جب تک ادیب بے خوف ہو کر اپنے دل کی بات نہ کہہ سکے، نہ تو کوئی فیض پیدا ہو گا، نہ منٹو، اور نہ ہی فراز۔
ہمیں یہ جنگ لڑنی ہو گی — قلم کی آزادی کی جنگ، سچ کی جنگ۔
کیونکہ
جہاں ادب آزاد ہے، وہیں انسان بھی آزاد ہے۔
اہم حوالہ جات:
➊
➋
2. سچ دفن ہو جاتا ہے
ادب وہ آئینہ ہے جو معاشرے کی منافقت، زخموں، اور سچائیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو ظلم کے سامنے سر اٹھاتی ہے، جو جبر کے اندھیروں میں روشنی کی کرن بنتی ہے۔ لیکن جب اس آئینے پر گرد جم جائے، جب اس آواز کو خاموش کر دیا جائے، تو سچ دفن ہو جاتا ہے، اور معاشرہ اپنی حقیقت سے آنکھیں چُراتا ہے۔
سعادت حسن منٹو کے افسانوں نے تقسیمِ ہند کے خون آلود زخموں کو نہ صرف بے نقاب کیا، بلکہ انسانیت کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔ لیکن اس سچائی کے بدلے انہیں فحاشی کے الزامات، عدالتوں کے کٹہرے، اور معاشرتی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
علامہ اقبال، جن کی شاعری امت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے تھی، ان کی شکوہ پر فتووں کی بوچھاڑ ہوئی۔ انہوں نے کہا تھا:
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
لیکن ان کے اس جرات مندانہ سچ کو دبانے کی کوشش کی گئی، حالانکہ وہ ایک سوئی ہوئی قوم کو جگانا چاہتے تھے۔
جب ادیب سچ کہنے سے ڈرے، تو معاشرہ اپنے زخموں کو دیکھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ یہ زخم پک کر ناسور بنتے ہیں، جو نسلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ منٹو کی کہانیوں پر پابندی لگائی گئی، لیکن کیا ان کے دکھائے گئے زخم جھوٹے تھے؟ اقبال کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن کیا ان کا پیغام غلط تھا؟
1957 میں بورس پاسترناک کا ناول Doctor Zhivago اٹلی میں شائع ہوا، لیکن سوویت یونین نے اسے "نظام مخالف" قرار دے کر 1988 تک شائع ہونے سے روک دیا۔ ناول ایک ڈاکٹر اور شاعر یوری ژھیواگو کی آنکھوں سے انقلابِ روس کے بعد کے سیاسی، سماجی اور ذاتی المیوں کو بیان کرتا ہے۔ انفرادی آزادی، روحانی جبر، اور نظام کے غیر انسانی چہرے کو بے نقاب کرنے والے اس ناول نے حکومت کو اتنا پریشان کیا کہ جب پاسترناک کو 1958 میں نوبل انعام برائے ادب ملا، تو سوویت ریاست نے ان پر اتنا دباؤ ڈالا کہ انہیں انعام لینے سے انکار کرنا پڑا۔ مغرب میں اسے آزادیِ رائے کا شاہکار سمجھا گیا، یہاں تک کہ CIA نے بھی اسے خفیہ طور پر سوویت عوام میں تقسیم کیا تاکہ وہ اپنے نظام کی حقیقت کو جان سکیں۔ Doctor Zhivago صرف ایک ناول نہیں تھا — یہ ریاستی سنسرشپ کے خلاف ایک خاموش بغاوت تھا۔ ادب جب سچ بولے، تو وہ صرف صفحے پر نہیں گونجتا، وہ نظاموں کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔
حوالہ
پاکستان میں بھی سچ بولنے والوں کا یہی انجام ہوتا آیا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں جب پروگریسو رائٹرز موومنٹ کے علمبرداروں — جیسے فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر — کو "غدار" ٹھہرایا گیا، تو یہ صرف ادب نہیں، صداقت کی شکست تھی۔
آج بھی جب کوئی شاعر اپنی نظموں میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، تو اسے یا تو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے یا خاموشی کی تاریکی میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ Human Rights Watch کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں صحافیوں، ادیبوں اور رائے دہندگان پر سنسرشپ، دھمکیوں اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اور سچ بولنا ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔
حوالہ
ادب کی یہ جنگ، انسانیت کی جنگ ہے
ادب کی یہ جنگ صرف لفظوں کی نہیں، بلکہ انسانیت کی بقا کی جنگ ہے۔ جب سچ دفن ہوتا ہے، تو معاشرہ اندھا ہو جاتا ہے۔
- اس کے زخم ناسور بنتے ہیں،
- اس کی روح مرجاتی ہے،
- اور اس کا مستقبل دھندلا ہو جاتا ہے۔
میں جانتا ہوں تھوڑا سا جذباتی ہو رہا ہوں مگر کیا کروں موضوع ہی ایسا ہے،
ہمیں اس آئینے کو صاف کرنا ہو گا، اس آواز کو بلند کرنا ہو گا۔ کیونکہ جہاں سچ زندہ ہے، وہی معاشرہ زندہ ہے۔
ہر ادیب، اقبال، اور فیض کے لیے یہ جنگ لڑنی ہو گی—
سچ کی جنگ، ادب کی جنگ، انسانیت کی جنگ۔
3. نئے خیالات مر جاتے ہیں
جب ہم کسی چیز کو صرف اس لیے خطرناک سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس کے قریب جانے سے روکتے ہیں، تو رفتہ رفتہ وہ چیز ہمارے لیے ایک راز بن جاتی ہے—ایسا راز جسے سمجھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب معاشرے نئے خیالات سے خوف کھانے لگتے ہیں، تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ "نیا خیال" ہوتا کیا ہے۔
ادب نئے خیالات کا گہوارہ ہے، وہ چنگاری جو معاشرے کے اندھیروں میں سوالوں کی روشنی بکھیرتی ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو
پرانے ڈھانچوں کو چیلنج کرتی ہے، نئی راہیں کھولتی ہے، اور انسانیت کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔
لیکن جب یہ آواز دبا دی جائے، جب خیالات کو جنم سے پہلے قتل کر دیا جائے، تو معاشرہ ساکت ہو جاتا ہے، اور میرے نزدیک اس کی روح مر جاتی ہے۔
جارج آرویل کا ناول 1984 ایک ایسی کتاب ہے جس نے آمریت کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ یہ ناول 1949 میں شائع ہوا، اور اس میں آرویل نے ایک ایسی خیالی دنیا دکھائی جہاں ایک ظالم حکومت، جسے "پارٹی" کہا جاتا ہے، ہر چیز پر کنٹرول رکھتی ہے — لوگوں کے خیالات، ان کے جذبات، حتیٰ کہ ان کی سچائی تک۔
اس دنیا میں سوال کرنا حرام ہے، آزاد سوچنا جرم ہے، اور سچ کو جھوٹ سے بدل دیا جاتا ہے۔ آرویل نے دکھایا کہ ایسی دنیا کوئی جنت نہیں، بلکہ ایک دم گھٹنے والا قید خانہ ہے جہاں انسان کی روح تک کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔
لیکن اس سچائی کی قیمت کیا تھی؟ 1984 نے ظالموں کے دل میں خوف پیدا کر دیا کیونکہ اس نے ان کے نظام کی حقیقت کو ننگا کر دیا۔ سوویت یونین سے لے کر دیگر آمرانہ ممالک تک، اس کتاب پر پابندیاں لگائی گئیں۔ کیوں؟ کیونکہ سچ ہمیشہ ظالموں کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔
سوویت یونین میں اسے "سرمایہ دارانہ پروپیگنڈا" سمجھا گیا، اور کئی دوسرے ممالک جیسے شمالی کوریا اور چین میں بھی اسے سنسر کیا گیا۔ یہ ناول صرف ایک کہانی نہیں تھا — یہ ایک آئینہ تھا جو طاقتور لوگوں کو ان کی اصلیت دکھاتا تھا، اور وہ اس سے گھبرا گئے۔
حوالہ
ترقی پسندوں کی جدوجہد
پاکستان میں ترقی پسند تحریک (1930ء–1950ء) نے بھی یہی جنگ لڑی۔ فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، اور عصمت چغتائی نے سماجی ناانصافیوں، طبقاتی جبر، اور استعماریت کے خلاف قلم اٹھایا۔
- فیض کی "بول کہ لب آزاد ہیں تیرے" ہر اس دل کی آواز بنی جو ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتا تھا، لیکن اس آواز کو خاموش کرنے کے لیے قید خانوں اور سنسرشپ کی زنجیروں سے گزرنا پڑا۔
- عصمت چغتائی کی لحاف پر فحاشی کا الزام لگا، حالانکہ اس نے عورتوں کے
دبے جذبات کو زبان دی۔
حالانکہ میں خود یہ بات سمجھتا ہوں کہ اگر میں ان کی جگہ پر ہوتا تو میں اسی مضمون کو ایک اچھے انداز میں بھی پیش کر سکتا تھا مگر یہ ان کا اپنا حق تھا کہ وہ اس موضوع کو جس طرح چاہیں پیش کریں اور یہاں پر میں عصمت چغتائی سے اختلاف رکھتا ہوں مگر اختلاف میری سوچ کی حد تک ہے اور میرے تجربے کی حد تک اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کہ مواد پر سینسر شپ کی جائے۔ انہوں نے تو اس موضوع کو اتنی مہارت سے لکھا کہ عدالت میں بھی ان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکا جو ان پر الزامات لگے تھے۔
ادھر اپ اس کہانی کو پڑھنا چاہیں۔ تو یہ رہا لنک۔۔
لحاف
- ساحر کی نظم چک لے نے سامراج کے خلاف آگ اگلی، لیکن اسے ریڈیو پر نشر ہونے سے روک دیا گیا۔
ان کی اس نظم کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں جس کے اشعار آپ نے پڑھے۔
آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے
آج بھی یہ سلسلہ تھما نہیں۔ افکار علوی کا شعر:
مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
صرف ایک شاعر کی آواز نہیں، بلکہ ایک قوم کے ضمیر کا سوال ہے۔ لیکن اسے متنازع بنا کر خاموش کرنے کی کوشش کی گئی، کیونکہ سچ بولنے والوں کو ہمیشہ دیوار سے لگایا جاتا ہے۔
جب خیالات دب جائیں، قومیں مر جاتی ہیں
جب خیالات کو دبایا جاتا ہے، تو معاشرہ جدت اور ترقی سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ صرف اعدادوشمار نہیں، یہ ایک قوم کے خوابوں کی موت ہے۔
خیالات کی جنگ، انسانیت کی جنگ ہے
ادب وہ بیج ہے جو نئے خیالات اگاتا ہے، لیکن جب اس بیج کو پانی اور روشنی سے محروم کر دیا جائے، تو وہ مر جاتا ہے۔
یہ صرف ادیبوں کی شکست نہیں، بلکہ ایک قوم کے مستقبل کی تباہی ہے۔
ہمیں اس چنگاری کو بچانا ہو گا، اس آواز کو بلند کرنا ہو گا۔
کیونکہ جہاں خیالات آزاد ہیں، وہیں معاشرہ زندہ ہے۔
ہر فیض، ہر آرویل، ہر علوی کے لیے یہ جنگ لڑنی ہو گی—
خیالات کی جنگ، آزادی کی جنگ، انسانیت کی جنگ۔
4. نظریاتی غلامی
ادب ایک ایسا پرندہ ہے جو دل سے اڑتا ہے، خیالوں کے آسمان پر رنگ بکھیرتا ہے، اور خاموش دلوں کو جگاتا ہے۔ مگر جب اسے نظریے کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے، جب اسے صرف ایک سوچ کا پابند بنا دیا جائے، تو جیسے اس کے پر زخمی ہو جائیں۔ پھر وہ اُڑنے کے خواب دیکھتا تو ہے، مگر اُڑ نہیں پاتا — اور جو گیت وہ گاتا تھا، وہ آہ بن جاتے ہیں۔
پھر دوبارہ سے ضیا کے دور کی بات کرنے کی ضرورت نہیں جو لکھا وہ دوبارہ اپنے ذہن میں دہرا لیجیے۔
اگر ادب میں سنسر شپ آ جائے تو ادب کسی خاص نظریے کے تحت جامد ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ نظریاتی غلامی کا شکار ہو جاتا ہے یہ صاف کہو تو معاشرہ کچھ الگ سوچ ہی نہیں سکتا۔
الیگزینڈر سولژنیتسن کی The Gulag Archipelago نے سوویت یونین کے کمیونسٹ نظریے کی جکڑبندی کو للکارا۔ اس کتاب نے لاکھوں انسانوں پر ہونے والے جبر، قید اور موت کی کہانی دنیا کے سامنے رکھی، اور اس سچائی کی قیمت انہیں جلاوطنی کی صورت میں چکانی پڑی۔
انہیں سوویت یونین سے بے دخل کر دیا گیا، کیونکہ ان کا قلم نظریاتی غلامی کے شکنجے کو توڑ رہا تھا۔
➊
➋
ادب، جب طاقت کے ایوانوں سے ٹکرا جائے، تو صرف لفظ نہیں کانپتے بلکہ نظام کی بنیادیں لرز جاتی ہیں۔ نائجیریا کے نوبل انعام یافتہ مصنف وول سوئنکا، جنہوں نے فوجی آمریت کے خلاف بے باک تحریریں لکھیں، خود کئی بار جلاوطنی اور قید کا سامنا کر چکے ہیں۔ ان کی خودنوشت You Must Set Forth at Dawn (2006) میں ان مظالم کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ چین میں لیو ژیاوبو، جنہیں 2010 میں نوبل امن انعام ملا، صرف ایک منشور لکھنے پر قید میں ڈالے گئے اور وہیں جان کی بازی ہار گئے۔ ان کی موت نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔
حوالہ
ادب جب نظریے کا غلام بن جائے، تو وہ ایک یک رنگ قفس بن جاتا ہے، جہاں تخلیق دم گھٹ کر مر جاتی ہے۔ ہر احمد فراز، ہر عصمت چغتائی، اور ہر سولژنیتسن کی روح ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ادب کو آزاد رکھنا، انسانیت کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ صرف لفظوں کی لڑائی نہیں، خوابوں اور ضمیر کی بقا کی جنگ ہے۔
5. ادیب باغی ہو جاتا ہے
ادیب باغی ہو جاتا ہے، جی ہاں!
جب آپ سوچنے والے ذہن پر پابندی لگاتے ہیں، اس کی سوچ کو قید کرتے ہیں، تو بغاوت لازمی جنم لیتی ہے۔
یہ بغاوت کسی فرد کی نہیں ہوتی، یہ پورے نظام کے خلاف ہوتی ہے۔
اور یہ وہ نقصان ہے جو سب سے بڑا ہوتا ہے—کیونکہ اس سے پورا معاشرہ اجڑ سکتا ہے۔
سوچیں، اگر ایک ادیب کوئی ایسی بات لکھ رہا ہے جو آپ کے معاشرے کی عمومی سوچ سے مختلف ہے، اور آپ اسے سننے کی بجائے اس پر پابندی لگا دیتے ہیں، تو آپ نے ایک دروازہ بند کر دیا۔
اگر وہی بات عام لوگوں تک پہنچتی، تو لوگ اس سے اختلاف بھی کرتے، شاید کچھ اس کے ساتھ کھڑے بھی ہوتے۔
لیکن جب آپ اسے روک دیتے ہیں، تو وہ بات دبتی نہیں، بلکہ اندر ہی اندر پکنے لگتی ہے۔
اب وہی ادیب، جسے روک دیا گیا، وہ اپنا کام چھپ کر کرے گا، اس پر غیر قانونی کا ٹھپہ لگے گا، اس کی عقل اور جذبات دونوں پر اثر پڑے گا۔
اور اگر آپ اسے قانون کے شکنجے میں لے آئیں، تو وہ شخص صرف فرد نہیں رہتا، وہ پورے معاشرے سے کٹ جاتا ہے۔
یا تو وہ سسک سسک کر جیتا ہے، یا ہجرت کر جاتا ہے—کسی ایسے معاشرے میں جہاں اس کی آواز کو جگہ ملے۔
اور یوں ایک ادیب نہیں جاتا، آپ ایک سوچ، ایک رنگ، ایک امکان کو کھو دیتے ہیں۔
رفتہ رفتہ یہ معاشرہ کھوکھلا ہو جاتا ہے، ایک جیسا، بے جان، اور بے رنگ۔
ادب وہ آگ ہے جو ظلم کے اندھیروں میں بھڑک اٹھتی ہے۔
جب ادیب کو بولنے کی اجازت چھین لی جائے، جب اس کے قلم پر زنجیریں ڈال دی جائیں، تو وہ باغی بن جاتا ہے۔
یہ بغاوت کبھی معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے،
کبھی انقلاب کی چنگاری بنتی ہے،
اور کبھی تباہی کے سائے گہرے کر دیتی ہے۔
فیض احمد فیض نے راولپنڈی سازش کیس (1951) میں برسوں قید کی صعوبتیں سہیں، لیکن ان کا قلم خاموش نہ ہوا۔ ان کی قید کی شاعری، خاص طور پر زندان نامہ، ظلم کے خلاف بغاوت کی علامت بن گئی، جس نے لاکھوں دلوں میں بیداری پیدا کی۔
ارشد شریف، ایک صحافی جن کا قلم سچائی کا علمبردار تھا، ریاستی مظالم کو بے نقاب کرتے کرتے اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ ان کی آواز طاقتور حلقوں کو ناپسند تھی — اور یہی ان کا جرم بن گیا۔
لیکن یہ بغاوت ہمیشہ روشنی کی راہ نہیں دکھاتی۔ جب ادیب کو ہر طرف سے دبایا جائے، تو کبھی کبھی اس کا غصہ شدت پسندی کی تاریک راہوں پر لے جاتا ہے۔
سوویت یونین میں، جہاں ادب کو ریاستی نظریے کا غلام بنایا گیا، بہت سے ادیب زیرِ زمین تحریکوں کی طرف مائل ہوئے۔ کچھ نے فن کے ذریعے مزاحمت کی، مگر بعض نے تشدد کا راستہ اختیار کیا — اور یوں معاشرہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔
احمد فؤاد نجم کو ان کی نظموں کی وجہ سے قید کیا گیا۔ ان کی شاعری نے عوام کو بیدار کیا، لیکن کچھ نوجوانوں نے اس بغاوت کو شدت پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی۔
حبیب جالب کو ضیاء الحق کے دور میں بار بار جیل میں ڈالا گیا، تو ان کی نظم دستور نے انقلاب کی آواز بلند کی۔ مگر بعض افراد نے اس آواز کو سیاسی تشدد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔
ادیب کی بغاوت ایک دو دھاری تلوار ہے۔
یہ معاشرے کو بیدار بھی کر سکتی ہے، اور گمراہی کی طرف بھی لے جا سکتی ہے — فیصلہ اس معاشرے کے رویے پر ہے۔
لیکن اس بغاوت کی جڑ کیا ہے؟
یہ وہ پابندیاں ہیں جو ادیب کے دل کو چھلنی کرتی ہیں۔ یہی پابندیاں ادیب کو یا تو ہیرو بناتی ہیں، یا پھر گمراہی میں دھکیل دیتی ہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال سینکڑوں صحافی اور ادیب سنسرشپ یا تشدد کا شکار ہوتے ہیں، جو انہیں باغی بننے پر مجبور کرتا ہے۔
ہمیں اس آگ کو بھڑکنے سے روکنا ہو گا۔
ادیب کو باغی بننے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔ اس کے قلم کو آزاد چھوڑنا ہو گا، تاکہ وہ معاشرے کو روشنی دے، نہ کہ تباہی۔
ہر فیض، ہر شریف, ہر جالب کے لیے یہ جنگ لڑنی ہو گی —
آزادی کی جنگ، سچ کی جنگ، انسانیت کی جنگ۔
کیونکہ جہاں ادیب آزاد ہے، وہی معاشرہ زندہ ہے۔
6. جوابدہی ختم ہو جاتی ہے
ادب کا ایک کام سچ کے پردے چاک کرنا بھی ہوتا ہے۔ ادب ہمیشہ معاشرے کا عکس ہوتا ہے، جیسا معاشرہ ہوتا ہے، ویسا ہی ادب سامنے آتا ہے۔ مگر اکثر اس آئینے پر جان بوجھ کر گرد ڈال دی جاتی ہے، تاکہ سچ دھندلا جائے، لوگ حقیقت سے دور رہیں، اور چند طاقتور طبقے اپنی گرفت مضبوط رکھیں۔ جب ادیبوں کو سچ لکھنے سے روکا جاتا ہے تو پھر ظالم کا ظلم مزید مضبوط ہو جاتا ہے، کیونکہ نہ کوئی سوال اٹھانے والا بچتا ہے، نہ کوئی حقیقت کو بے نقاب کرنے والا۔ آہستہ آہستہ ظلم ایسے غائب ہو جاتا ہے جیسے کبھی ہوا ہی نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جتنا کوئی طاقتور ہو، اس سے سوال پوچھنا اُتنا ہی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں، جہاں سچ بولنا جان لیوا جرم بن چکا ہے، Committee to Protect Journalists کے مطابق، 2000 سے 2020 تک پاکستان میں متعدد صحافی قتل ہوئے، اور 1992 سے اب تک 60 سے زائد صحافیوں کے قتل کی تصدیق ہوئی ہے (CPJ, 2021)۔ ان میں سے کئی، جیسے کہ تحقیقاتی صحافی سلیم شہزاد، جنہوں نے 2011 میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ راز بے نقاب کیے، کو خاموش کرنے کے لیے موت کی سزا دی گئی۔
یہ صرف پاکستان کی کہانی نہیں۔
چین میں لیو ژیاوبو، جنہوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے اپنی تحریروں سے ایک خواب بُنا، کو اس خواب کی پاداش میں برسوں قید کی کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔ Amnesty International (2017) کے مطابق، نوبل امن انعام یافتہ لیو ژیاوبو کو 2009 میں "ریاست کے خلاف سازش" کے الزام میں 11 سال کی سزا سنائی گئی، اور 2017 میں وہ قید میں ہی چل بسے۔ ان کا جرم کیا تھا؟ صرف اتنا کہ انہوں نے Charter 08 کے ذریعے ایک منصفانہ معاشرے کا خواب دیکھا۔
عالمی سطح پر، جب سعودی عرب میں جمال خاشقجی کو 2018 میں سفارتخانے میں قتل کیا گیا، تو یہ صرف ایک صحافی کا قتل نہیں تھا، بلکہ جوابدہی کی آواز کو دبانے کی ایک خوفناک مثال تھی (The Washington Post, 2018)۔
اسی طرح، میانمار میں رائٹرز کے صحافی وا لون اور کیاو سو او کو 2017 میں روہنگیا نسل کشی کی رپورٹنگ کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا (Reuters, 2018)۔
جب ادب اور صحافت پر پابندی لگتی ہے، تو سوال اٹھانا بند ہو جاتا ہے۔ جب سوال بند ہوتے ہیں، تو ظلم اور بدعنوانی آسمان چھونے لگتی ہے۔
Transparency International (2023) کی رپورٹ کے مطابق، جن ممالک میں آزادیِ صحافت محدود ہے، وہاں بدعنوانی کی سطح نمایاں طور پر زیادہ ہوتی ہے (source)۔ یہ اعدادوشمار نہیں، بلکہ ایک معاشرے کی موت کا نوحہ ہیں۔
جب طاقتور طبقات کو جوابدہ نہ کیا جائے، تو وہ قوم کے وسائل لوٹتے ہیں، کمزوروں کو کچلتے ہیں، اور انصاف کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔
پاکستان میں، جہاں صحافیوں کو دھمکیاں، اغوا، اور قتل کا سامنا ہے، Freedom House (2023) رپورٹ کرتا ہے کہ آزادیِ رائے مسلسل سکڑ رہی ہے، جس سے بدعنوانی کے عفریت کو مزید تقویت ملتی ہے۔
ادب اور صحافت کی یہ جنگ صرف لفظوں کی نہیں، بلکہ معاشرے کے ضمیر کی جنگ ہے۔ ہر سلیم شہزاد، ہر لیو ژیاوبو، ہر خاشقجی کے خون سے یہ پیغام ملتا ہے کہ جوابدہی کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔
ہمیں اس آئینے کو ٹوٹنے سے بچانا ہو گا، اس آواز کو خاموش ہونے سے روکنا ہو گا۔ کیونکہ جہاں ادب اور صحافت آزاد ہیں، وہی معاشرہ انصاف کی روشنی میں سانس لے سکتا ہے۔
یہ جنگ سچ کی جنگ ہے، انصاف کی جنگ ہے، انسانیت کی جنگ ہے۔
7. تاریخ اندھی ہو جاتی ہے
ادب اور صحافت تاریخ کے وہ چراغ ہیں جو ماضی کی سچائیوں کو روشن کرتے ہیں، آنے والی نسلوں کو راہ دکھاتے ہیں۔ یہ وہ داستانیں ہیں جو ظلم کے سائے، جدوجہد کی آواز، اور انسانیت کے زخموں کو امر کرتی ہیں۔ لیکن جب ان چراغوں کو بجھا دیا جائے، جب قلم کو زنجیروں میں جکڑ لیا جائے، تو تاریخ اندھی ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی سچائی کھو دیتی ہے، اور ماضی کے سبق ایک مسخ شدہ کہانی بن کر رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں، جہاں ادب اور صحافت پر سنسرشپ کی تلوار لٹکتی رہتی ہے، تاریخ کے کئی باب مسخ کر دیے گئے۔ 1971 کی جنگ کے زخموں کو منٹو جیسے ادیبوں کی طرز کے ادب سے امر کیا جا سکتا تھا، لیکن ایسی آوازوں کو سنسرشپ کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔ Dawn (2019) کے مطابق، پاکستانی نصاب سے 1971 کے سانحے کی مکمل حقیقت کو ہٹا کر ایک یک طرفہ داستان پیش کی گئی، جس نے نئی نسلوں کو ماضی کے سبق سے محروم کر دیا۔
یہ صرف پاکستان کی کہانی نہیں۔ عالمی سطح پر، جب ادب اور صحافت کو خاموش کیا جاتا ہے، تو تاریخ کے رنگ چھین لیے جاتے ہیں۔ سوویت یونین میں، جب The Gulag Archipelago جیسے شاہکار کو سنسر کیا گیا، تو لاکھوں قیدیوں کی داستان گم ہو گئی، اور ایک پوری نسل کو اپنے ماضی کے جرائم سے لاعلم رکھا گیا (The Guardian, 1974)۔
شام میں، جب صحافیوں اور ادیبوں کو بشار الاسد کی حکومت نے خاموش کیا، تو خانہ جنگی کے مظالم کی داستان دنیا تک مکمل طور پر نہ پہنچ سکی (Reporters Without Borders, World Press Freedom Index 2018)۔
ترکی میں، جب 2016 کے بعد صحافیوں اور ادیبوں پر کریک ڈاؤن ہوا، تو آرمینیائی نسل کشی جیسے تاریخی حقائق کو نصاب اور میڈیا سے ہٹا دیا گیا (Freedom House, 2020)۔
جب تاریخ اندھی ہوتی ہے، تو قومیں اپنی شناخت کھو دیتی ہیں۔ UNESCO, World Trends in Freedom of Expression and Media Development 2022 کے مطابق، جن ممالک میں آزادیِ رائے محدود ہوتی ہے، وہاں تاریخی دستاویزات اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کو شدید نقصان پہنچتا ہے (رپورٹ لنک)۔
یہ صرف کاغذوں کی تباہی نہیں، بلکہ ایک قوم کے ضمیر کی موت ہے۔ جب ادب اور صحافت کو دبایا جاتا ہے، تو ظالم اپنی داستان خود لکھتے ہیں، اور مظلوموں کی چیخیں گم ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں، جہاں Freedom House (2023) کے مطابق آزادیِ صحافت مسلسل دباؤ میں ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مظالم کی کہانیاں اکثر خاموش کر دی جاتی ہیں، جس سے تاریخ کا ایک اہم حصہ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔
ہمیں تاریخ کو اندھا ہونے سے بچانا ہو گا۔ ہر منٹو، ہر صحافی، ہر شاعر کی آواز کو زندہ رکھنا ہو گا، کیونکہ یہی آوازیں ماضی کو امر کرتی ہیں، حال کو جھنجھوڑتی ہیں، اور مستقبل کو روشن کرتی ہیں۔ یہ جنگ صرف لفظوں کی نہیں، بلکہ سچ کی، تاریخ کی، اور انسانیت کی جنگ ہے۔ جہاں ادب اور صحافت آزاد ہیں، وہی تاریخ اپنی آنکھیں کھولتی ہے، اور قومیں اپنے سبق سیکھتی ہیں۔
آزادیِ رائے: دلیل اور احترام
اگر اپ کو یاد ہو تو شروع میں میں نے ایک بات کہی تھی کہ میرے نزدیک ادب کا مقصد اپنی خوبصورتی سے معاشرے کو بہتر بنانا بھی ہے، اور اگر کوئی ادیب چاہتا ہے کہ اس کے لکھے سے معاشرہ خوشگوار رہے تو اسے ذمہ داری کے ساتھ لکھنا ہوگا کہ اس کی وجہ سے کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
آزادیِ رائے انسانی شعور کی وہ توانائی ہے جو معاشرے کے تنگ نظری کے بندھنوں کو توڑتی ہے اور نئی سوچ کے دروازے کھولتی ہے۔ مگر یہ آزادی اسی وقت اپنا اصل مقصد پورا کرتی ہے جب اسے دلیل کی گہرائی، احترام کی روشنی، اور ذمہ داری کے شعور کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ حساس موضوعات—مثلاً مذہبی عقائد، مقدس ہستیاں، یا تاریخی زخم—پر قلم اٹھانا ایک نازک ذمہ داری ہے۔ اگر ادیب اسے احتیاط سے نہ نبھائے، تو لفظ نفرت کی آگ بھڑکا سکتے ہیں، جو معاشرے کے تانے بانے کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔
سلمان رشدی کی
The Satanic Verses (1988)
کے تنازعے نے یہ سبق دیا کہ بے احتیاط تحریر نہ صرف دل زخمی کرتی ہے، بلکہ عالمی سطح پر تشدد اور تقسیم کو ہوا دیتی ہے ۔ اس تنازعے نے آزادیِ رائے اور مذہبی جذبات کے درمیان ایک گہری خلیج پیدا کی، جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
میں ایک انسان بن کر سوچوں، تو میں تمہیں اس چیز سے نہیں روکتا کہ تم کوئی کہانی لکھو۔ کہانی لکھنا کوئی گناہ نہیں، نہ ہی برا کام ہے۔ لیکن اگر تم پہلے سے اپنے ذہن کو اس نیت سے تیار کر لو کہ اب میں فلاں شخصیت کو نشانہ بنانے جا رہا ہوں، تو یہ بات ٹھیک نہیں لگتی۔
اور وہ شخصیت بھی کوئی عام شخصیت نہیں، بلکہ وہ ہیں جن سے دو ارب سے زیادہ دل جڑے ہوئے ہیں — نبی آخر الزماں محمد ﷺ۔
ان کا ذکر کرنے سے پہلے یہ بات دل میں رکھنی چاہیے کہ ان کے ماننے والے، ان کے چاہنے والے، اس حد تک ان سے محبت کرتے ہیں کہ جو بھی ان کی شان میں گستاخی کرے، اُسے کبھی آسانی سے معاف نہیں کرتے۔
میں یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ میں اس عشق کی شدت کو جانتا ہوں۔ جب آپ ایسا کچھ لکھتے ہیں جو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے، تو اس کے نتائج معاشرے میں بڑا انتشار پیدا کر سکتے ہیں۔
یاد رکھیے، اس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہے، اس لیے جب بھی کسی ایسے موضوع پر قلم اٹھائیں، جس سے کسی قوم، مذہب یا عقیدے کے جذبات جڑے ہوں، تو میری سب ادیبوں اور لکھنے والوں سے یہی گزارش ہے:
قلم ضرور اٹھائیں، مگر ذمہ داری کے ساتھ — کیونکہ بعض لفظ کاغذ پر نہیں، دلوں پر لکھے جاتے ہیں۔
تاہم، یہ اصول عالمگیر اور منصفانہ ہونا چاہیے۔ مغربی دنیا میں ہولوکاسٹ کا انکار ایک سنگین جرم ہے، کیونکہ یہ تاریخی سچ کی توہین اور یہودیوں کے ناقابلِ بیان دکھ کی بے حرمتی ہے (European Court of Human Rights, 2019)۔ یہ ایک درست اقدام ہے، کیونکہ یہ نفرت انگیزی کے خلاف ایک واضح موقف ہے۔ لیکن جب 1.9 بلین مسلمانوں کے ایمان کے مرکز، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے، جیسے کہ فرانس میں Charlie Hebdo کے خاکوں کے معاملے میں ہوا (BBC, 2015)، تو اسے آزادیِ رائے کا لیبل دیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟
اگر فلسطین میں اسرائیلی قبضے، کشمیر میں بھارتی ظلم، یا برما میں روہنگیا نسل کشی کے مظلوموں کے خون کو نظر انداز کیا جاتا ہے (Human Rights Watch, 2021؛ UN Report, 2018)، تو کیا یہ انصاف ہے؟ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین موجود ہیں، لیکن ان کا غلط استعمال اقلیتوں اور کمزور طبقات کے خلاف ہتھیار بنتا ہے (Human Rights Watch, 2023)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی جذبات کی حفاظت غیر ضروری ہے، بلکہ ایک منصفانہ اور متوازن نظام کی ضرورت ہے جو نہ آزادیِ رائے کو مکمل دبائے، نہ احترام کی قدروں کو پامال کرے۔
آزادیِ رائے کی خوبصورتی اس کی ذمہ داری میں پنہاں ہے۔ جب ادیب اور صحافی اپنے لفظوں کو شعور، احترام، اور دلیل سے آراستہ کرتے ہیں، تو وہ معاشرے کو جوڑتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے اپنی تحریروں میں جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھائی، لیکن نفرت کے بجائے اتحاد اور مفاہمت کی بات کی (Long Walk to Freedom, 1994)۔ فلسطینی شاعر محمود درویش نے اپنی نظموں میں وطن کی جدوجہد کو تاریخی تناظر اور انسانی جذبے سے بیان کیا، اشتعال انگیزی سے گریز کرتے ہوئے (Poetry of Resistance, 2000)۔ پاکستان میں فیض احمد فیض نے "ہم دیکھیں گے" لکھ کر ظلم کے خلاف شاعرانہ مزاحمت کی، لیکن ان کے لفظ احترام اور گہرائی سے بھرپور تھے (Poetry of Faiz, 1971)۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ آزادیِ رائے کو دلیل اور احترام کے ساتھ استعمال کرنے سے معاشرے میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔
یہ منافقت صرف مغرب تک محدود نہیں؛ پاکستان میں بھی توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال نے انصاف کو کمزور کیا ہے۔ ہمیں اس دوہری زبان کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔
ایک ایسا راستہ چننا ہوگا جہاں آزادیِ رائے اور احترام ایک دوسرے کے ساتھ چلیں۔ جنوبی افریقہ کے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے نسل پرستی کے خلاف لکھا، لیکن انسانیت کی بات کی (No Future Without Forgiveness, 2004)۔ فلسطینی شاعرہ فدویٰ طوقان نے وطن کے دکھ شاعری میں سموئے، لیکن اشتعال سے پرہیز کیا (Poetry of Resistance, 1990)۔ یہ سبق ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
آزادیِ رائے ایک مقدس تحفہ ہے، مگر اسے دوسروں کے دل زخمی کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ادیب اور صحافی کو اپنے لفظوں کی طاقت کو سمجھنا ہوگا۔ یہ جنگ صرف لفظوں کی نہیں، بلکہ انصاف، مساوات، اور انسانیت کی جنگ ہے۔ جہاں آزادی شعور اور احترام کے ساتھ ہوتی ہے، وہی معاشرہ امن، اتحاد، اور ترقی کی روشنی میں سانس لے سکتا ہے۔
ادیبوں کی آواز
ادیب وہ آزاد پرندے ہوتے ہیں جو پنجروں میں قید نہیں کیے جا سکتے۔ ان کے پروں پر خیالات کے رنگ چمکتے ہیں، اور ان کی آواز تاریخ کے اندھیروں میں روشنی بکھیرتی ہے۔ ان کا قلم محض الفاظ نہیں، بلکہ معاشرے کے ضمیر کی چیخ، انسانیت کی جدوجہد کا آئینہ، اور سچائی کی امانت ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی
گیتانجلی
، جس نے 1913 میں نوبل انعام جیتا، ایک ایسی جنت کا خواب دکھاتی ہے جہاں دماغ خوف سے آزاد ہو، سوال اٹھانے کی اجازت ہو، اور علم کی روشنی ہر دل تک پہنچے۔ فیوڈور دوستوئیفسکی کے
Crime and Punishment
نے ایک ایسی دنیا کا پردہ فاش کیا جہاں جھوٹ کی جنت بنانے کے لیے انسان کو اپنا ضمیر مارنا پڑتا ہے—جہاں گناہ کی سزا صرف قانون سے نہیں، بلکہ دل کی عدالت سے بھی ملتی ہے۔
اس طرح کی مثالیں میں پورے مضمون میں کئی جگہ دے چکا ہوں اور احمد فراز نے اس جدوجہد کو یوں سمیٹا:
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
یہ ادیب سکھاتے ہیں کہ ادب محض خوبصورت الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک قوم کی روح، اس کے خوابوں کی آواز، اور اس کے زخموں کی داستان ہے۔
یہ آواز عالمی سطح پر بھی سنائی دیتی ہے۔ چلی کی شاعرہ
گیبریلا مسترال
نے اپنی نظموں میں بچوں اور غریبوں کے دکھ کو بیان کیا، جس پر انہیں 1945 میں نوبل انعام ملا—کیونکہ ان کا قلم انسانیت کی خدمت کرتا تھا۔ نائیجیریا کے
وول سوئنکا
نے اپنے ڈراموں میں فوجی آمریت کے مظالم کو بے نقاب کیا۔ انہیں 1986 میں نوبل انعام ملا، لیکن اس کے ساتھ جیل اور جلاوطنی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
یہ ادیب ہمیں سکھاتے ہیں کہ ادب صرف کہانیاں نہیں، بلکہ تاریخ کا سبق ہے—ایک ایسا سبق جو ماضی سے سیکھنے، حال کو سمجھنے، اور مستقبل کو سنوارنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
لیکن جب اس آواز کو دبایا جاتا ہے، تو تاریخ کے سبق گم ہو جاتے ہیں۔ سوویت یونین میں بورس پاسترناک کے Doctor Zhivago پر پابندی لگی، تو ایک پوری نسل انقلاب کے زخموں سے لاعلم رہ گئی۔ پاکستان میں 1970ء کی دہائی میں ترقی پسند ادیبوں پر سنسرشپ مسلط کی گئی، تو عوام کا درد ایک خاموش چیخ بن کر رہ گیا۔
ادیبوں کی آواز کو زندہ رکھنا ہو گا، کیونکہ یہ آواز صرف شاعری یا نثر نہیں، بلکہ انسانیت کا ضمیر ہے۔ ہر ٹیگور، ہر فیض، ہر مسترال کے قلم سے نکلا ہر لفظ ایک جنگ ہے—سچ کی جنگ، انصاف کی جنگ، تاریخ کی جنگ۔ جہاں ادیب کی آواز آزاد ہے، وہی معاشرہ اپنی تاریخ سے سیکھتا ہے، اپنے زخموں کو سمجھتا ہے، اور اپنے خوابوں کو پرواز دیتا ہے۔
شاید میری باتوں میں کچھ جذباتیت زیادہ ہو جائے، اور ممکن ہے کہ یہ کبھی کبھار سننے والے کو تھوڑا سا بوجھل لگے۔ مگر یقین جانیے، جب انسان دل سے لکھتا ہے، تو کبھی کبھار جذبات میں بہہ جانا فطری ہوتا ہے۔اسی کے ساتھ بس اختتام کی جانب چلتے ہیں اخری سیکشن آئیے پڑھیے۔۔۔۔۔
نتیجہ: ادب کو زنجیریں نہ دو
اخر میں میں تمام کارین سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب بھی آپ ایسے موقع پر ہوں جہاں اپ ادب پر پابندیاں لگا سکتے ہوں تو خدارا پابندیاں مت لگائیے گا کیونکہ اپ کا انسان کے خیال کے اوپر کوئی بھی حق نہیں ہے وہ جیسا سوچتا ہے اسے سوچنے دیجیے کیونکہ اگر کسی انسان کی سوچ بدلنا چاہتے ہیں تو سوال اٹھائیے اس کے سوالوں کو خاموش مت کیجئے۔
ادب پر پابندیاں محض لفظوں کی قید نہیں، بلکہ ایک قوم کے شعور اور شناخت کی تباہی ہیں۔ یہ: فکری معیار کو گراتی ہیں۔ سچ کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔ نئے خیالات کو جنم سے پہلے ختم کرتی ہیں۔ ادب کو نظریاتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی ہیں۔ ادیبوں کو باغی بننے یا خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ جواب دہی کے راستوں کو بند کرتی ہیں۔ تاریخی شعور کو کمزور کرتی ہیں۔ یہ پابندیاں صرف کاغذ پر لکھے لفظوں کو نہیں، بلکہ ایک قوم کی امید، اس کے خواب، اور اس کے مستقبل کے امکانات کو محدود کرتی ہیں۔
کہنے کو تو بہت کچھ باقی ہے، مگر فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ میں نے صرف الفاظ دیے ہیں، سوچ کا بیج آپ کے دل و دماغ میں بو دیا ہے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ اپنی سوچ کی زمین میں اسے سینچیں، سوال اٹھائیں، مکالمہ کریں، اور سب سے بڑھ کر — یہ مانیں کہ جیسے آپ آزاد ہیں سوچنے میں، ویسے ہی ہر فرد بھی آزاد ہے۔ ادب کو پابندیوں کا شکار نہ بنائیں؛
خود سوچ قریب فیصلہ کریں کہ کیا ہر پرندہ پنجرے میں رہ سکتا ہے 🥺
۔شکریہ! پڑھنے کے لیے (اللہ حافظ)۔
2 Comments