2025 کی 5 مشہور اردو نظمیں جو آپ کو ضرور سننی چاہئیں

ادب کا سفر

اردو شاعری اور نظموں کی دنیا میں خوش آمدید

2025 کی 5 مشہور اردو نظمیں جو آپ کو ضرور سننی چاہئیں

السلام علیکم! آج ہم بات کرنے جا رہے ہیں ہمارے معاشرے کی پانچ ایسی مشہور نظموں کی، جن میں سے میرا دعویٰ ہے کہ کم از کم تین تو آپ نے کبھی نہ کبھی سنی ہی ہوں گی، یا پھر ان کے کچھ اشعار سنے ہوں گے۔ آج ہم مکمل نظمیں اور ان کے خالق کے بارے میں جانیں گے۔ تو آئیے معلوم کرتے ہیں کہ یہ نظمیں کیسے وجود میں آئیں اور 2025 میں آپ کے سننے کے لیے بہترین پانچ نظمیں کون سی ہیں۔

نظم کیا ہے؟

"شاعری کی ایک صنف، اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو چکی ہے۔"

1. ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں - منیر نیازی

ہماری پہلی مشہور نظم منیر نیازی صاحب کی ہے۔ ان کا نام تو یقیناً آپ نے سنا ہوگا۔ ان کی نظم "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں" ہمارے ہاں بہت مشہور ہے اور یقیناً آپ لوگوں نے بھی سنی ہوگی۔ تو آئیے مکمل نظم پڑھتے ہیں۔ اگر آپ یہ نظم سننا چاہتے ہیں تو ویڈیو نیچے دی گئی ہے۔ ہم تو پڑھنے کے شوقین ہیں، اس لیے مکمل نظم نیچے دی جا رہی ہے جس کا عنوان ہے "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں"۔

منیر نیازیؔ

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔۔۔۔

2. شکوہ - علامہ اقبال

ہمارے مطابق دوسری نظم جو ہر دوسرا انسان جانتا ہے اور سن چکا ہوگا وہ ہے "شکوہ"۔ میرا اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ یہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی، کیونکہ یہ بات سب کو معلوم ہے۔ چلیں، شکوہ پڑھتے ہیں۔ جوابِ شکوہ کسی اور دن زیر بحث لائیں گے۔ چونکہ شکوہ بہت طویل ہے، اس لیے مکمل نظم نیچے دی جا رہی ہے۔ آخر میں ضیا محی الدین کی آواز میں ویڈیو بھی دی گئی ہے، ان کی آواز میں کمال کا جادو ہے۔ جو پڑھنا چاہتے ہیں وہ پڑھیں اور سن بھی لیں۔

حصہ سوم سے 1908—(بانگ درا)

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا
قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی
اہل چیں چین میں ایران میں ساسانی بھی
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی کس نے
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی ایفریقا کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہمیں چھاؤں میں تلواروں کی
ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سر بکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے
قوم اپنی جو زرو و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے
توڑے مخلوق خدا وندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دئیے کفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو
کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی
کس کی شمشیر جہانگیر جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ہو اللہ احد کہتے تھے
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ میں دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو کبھی ناکام پھرے
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں
امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہ گار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سیکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بے زار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
یہ شکایت نہیں ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب
طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے
بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے
تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
درد لیلیٰ بھی وہی قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی
عشق کا دل بھی وہی حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی تو بھی وہی
پھر یہ آرزدگئ غیر سبب کیا معنی
اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی
تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا
بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا
عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تونے
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمئ رخسار سے محفل تو نے
آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں
وادیٔ نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا
قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ہم نہ رہے دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
اے خوشا آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے
دور ہنگامۂ گلزار سے یکسو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز
نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں
قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزہ جینے میں
کچھ مزہ ہے تو یہی خون جگر پینے میں
کتنے بیتاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری

3. رقیب سے - فیض احمد فیض

امید ہے کہ آپ کو مزہ آ رہا ہوگا۔ اب ہم اپنی تیسری مشہور نظم کی طرف بڑھتے ہیں جو ہمارے خطے میں مشہور ہے۔ یہ نظم فیض احمد فیض صاحب کی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سیالکوٹ کے جس مکان میں فیض صاحب رہتے تھے، اس کے سامنے ایک لڑکی رہتی تھی۔ فیض اس کے عشق میں مبتلا تھے، لیکن ایک دن کالج سے واپس آئے تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ آغا ناصر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ برسوں بعد جب فیض مشہور ہوئے اور اپنے شہر واپس آئے تو وہ لڑکی بھی کہیں سے آئی ہوئی تھی اور اس کا شوہر فیض سے ملنے کا شوقین تھا۔ فیض کہتے ہیں کہ جب میں ان سے ملا تو وہ لڑکی مجھ سے کہتی ہے، 'میرا شوہر کتنا خوبصورت ہے'۔ اس موقع پر یہ نظم "رقیب سے" لکھی گئی۔ چلیں، اسے پڑھتے ہیں۔ ویڈیو بھی نیچے دی گئی ہے۔

فیض احمد فیض

آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
"تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے"
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

مأخذ: کتاب: Nuskha Hai Wafa (Pg. 68)

4. تنہائی - فیض احمد فیض

ہماری چوتھی نظم ہے "تنہائی"، جو فیض احمد فیض کی ہی ہے۔ یہ نظم تنہائی کو ایک خوبصورت انداز میں بیان کرتی ہے۔ چلیں، اسے پڑھتے ہیں۔ ویڈیو نیچے دی جا رہی ہے۔

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

5. جاوید کے نام - علامہ اقبال

اب پانچویں نظم کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس نظم کا عنوان ہے "جاوید کے نام" (بال جبریل)، جو علامہ اقبال کے بیٹے کے نام ہے۔ جب اقبال دوسری گول میز کانفرنس کے لیے لندن گئے تو جاوید اقبال نے لاہور سے خط لکھا اور گراموفون لانے کی فرمائش کی۔ اقبال گراموفون نہ لا سکے، لیکن نوجوانوں کے لیے یہ نظم لکھی جس میں خودی کا پیغام ہے۔ چلیں، یہ نظم پڑھتے ہیں۔

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

جو لوگ اس نظم کو نصرت فتح علی خان کی آواز میں سننا چاہتے ہیں، وہ نیچے ویڈیو دیکھ سکتے ہیں:

آج کے لیے اتنا ہی۔ ادب بہت وسیع ہے اور اسے ایک بلاگ میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ اس لیے میں آہستہ آہستہ ادب سے متعلق چیزیں بیان کرتا رہوں گا۔ السلام!

اوپر جائیں
About Us